جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا ...

Share

اپنے دیس کو روتے بھی ہو، چین سے پڑ کر سوتے بھی ہو

اپنے دیس کا غم کیسا ہے، ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو

کس نے کہا تھا آو یہاں، آ کر تم بس جاؤ یہاں

جب دیس تمہارا اپنا تھا، وہ شہر تمہارا اپنا تھا

... وہ گلی تمہاری اپنی تھی، وہ مکاں پرانا اپنا تھا

اس دیس کو پھر کیوں چوڑا تھا، کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا

سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا، ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
 
 
جب بھی دیسی مل کے بھٹیں پھر قصّے چھڑ جاتے ہیں


ان ٹوٹی سڑکوں کے قصّے، ان گندی گلیوں کے قصّے

ان گلیوں میں پھرنے والے ان سارے بچوں کے قصّے

اورنگی یا کورنگی کے پانی کے نلکوں کے قصّے

ان نلکوں پہ ہونے والے ان سارے جھگڑوں کے قصّے

...اور نکّر والے دروازے پہ ٹاٹ کے اس پردے کے قصّے

اس پردے کے پیچھے بیٹھی اس البیلی نار کے قصّے

جسکی ایک نظر کو ترسے ان سارے لڑکوں کے قصّے

جھوٹے قصّے سچے قصّے ، پیار بھرے اس دیس کے قصّے

پیار بھرے اس دیس کو تم نے آخر کیونکر چھوڑا تھا

کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا

سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا، ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

تم پھولے نہیں سماے تھے، جب embassy سے آے تھے


ہر ایک کو ویزا دکھاتے تھے اور ساتھ یہ کہتے جاتے تھے

چند ہی دنوں کی بات ہے یاروں جب میں واپس آؤنگا

ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر اور patta بھی لاؤں گا

تم نے کب یہ سوچا ہوگا ، کیا کیا کچھ پردیس میں ہوگا...

اپنے دیس کے ہوتے سوتے، بے وطنی کو روتے روتے

دیس کو تم پر دیس کہو گے اور پردیس کو دیس کہو گے

دیس کو تم الزام بھی دو گے، الٹے سیدھے نام بھی دو گے

ارے دیس کو تم الزام نہ دو، الٹے سیدھے نام نہ دو

دیس نے تم کو چھوڑا تھا، یا تم نے دیس کو چھوڑا تھا

کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا

سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا، ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

0 comments:

Post a Comment